Orhan

Add To collaction

موحببت کی حقیقت

نہ کچھ عالم سمجھتے ہیں نہ کچھ جاہل سمجھتے ہیں
محبت کی حقیقت کو بس اہل دل سمجھتے ہیں

نشان منزل مقصود پا کر بھی نہ جو ٹھہرے
اسی رہرو کو ہم آسودۂ منزل سمجھتے ہیں

ترے صحرا نوردوں کا مذاق جستجو توبہ
غبار راہ کو یہ پردۂ محمل سمجھتے ہیں

تمہیں سے ہے یہ نور شمع اور یہ سوز پروانہ
تمہیں کو اہل محفل رونق محفل سمجھتے ہیں

نہ دنیا باعث غفلت نہ عقبیٰ وجہ ہشیاری
رہے جو تجھ سے غافل ہم اسے غافل سمجھتے ہیں

یہاں تو قابل افسوس ہیں دشواریاں ان کی
تمہاری راہ میں مشکل کو جو مشکل سمجھتے ہیں

انہیں کو تیرے تیر نیم کش کا لطف آتا ہے
نہ سینے کو جو سینہ اور نہ دل کو دل سمجھتے ہیں

گل مقصود سے پھر کیوں اسے وہ بھر نہیں دیتے
مرے دامن کو جب وہ کاسۂ سائل سمجھتے ہیں

کوئی سمجھے نہ سمجھے اس حقیقت کو مگر نجمیؔ
ہم اپنے درد دل کو عشق کا حاصل سمجھتے ہیں

امجد نجمی

   0
0 Comments